*اُتمــان خـيل قبیلے کا ارتقائی سفر*
1,660
Salman Jabbar
2021-05-05 08:36:52
*Evolutionary journey of utmanـkhel Tribe*
*تحریر و تحقیق !! طارق اتمان خیــل دیر*
*روزنامه چاند* " *پیر 15 مارچ 2021*
*مہمان کالم*
تــاریخ اقوام کی عروج و زوال، اختیار و اقتدار، کامیابیوں ناکامیوں، رسموں و رواجوں، کا آئینہ ھے. اقوام کی ابتدا کا پتہ لگانا ایکـ مشکل کام ھے. اتمان خیل موجودہ ادوار میـں ایکـــ بــڑا افغان قبیلہ ہے جسکا شمار کرلانی گروپ میں ہوتا ہے. کرلانی پختون ' موجودہ پختونخوا اور افغانستان کــے قدیم لوگـ مانے جاتے ہیں اتمان خیـل دریائــے آمو ســے لیکر چترال، بلوچستان اور ہندوستان، ایران تک جگہ جگہ اباد ہیں تاہــــم اتمان خیلو کی زیادہ تناسب دیر، باجوڑ، ملاکنڈ، سوات، مومند، مردان، اور پشاور میں پائی جاتی ہیں. اتمان خیــل کے اکثر بزرگــ اســـے *تمان خیل Tamanـkhel* کــے نام سے بھی پکارتـے ہیں. خیال کیا جاتا ہے کہ اسلامی غالبـــ آغاز و ادوار میں اس نام *تمان* کیساتھ عام اصطلاح میں *اُ* کا اضافہ ہوا ہے اور *اتمان* *utman* بن گیا ہےـ اس طرح اس لفظ کے ساتھ *اربک* *Arbic* اصطلاح *خیــل khel* بھی لگـ گیا ہےـ جو کہ نسل کیلئے بطور علامتـــ ہوتا ہے اور اسکا معنی گروہ، انجمن یا کمپنی ہیں.
روایتی اور افسانوی تاریخ میں اُتمان خیلوں کے یوسفزئ قبایل کیساتھ ہجرتیں لکھی گئی ہیں جو کہ تاریخی استسناد کے حوالوں سے کمزور ہیں اور تاریخی حقایق پر مبنی نہیں ہیں مثال کے طور پر لکھا ہے "کہ چودویں عیسوی کـے شروعات میں اتمان خیـل ٹانک اور گومل پہاڑوں سے اٹھ کر بشمولیت قبیله یوسفزئ کابل اور ننگرہار کے راستے آئے" حالانکہ یوسفزئ الغ بیگ کے زمانے میں کابل سے پشاور اور سوات میں اباد ہوئے تھے لیکن اتمان خیلو کا ٹانکــ اور گومل کی پہاڑوں سے اٹھ کر آنا اور پھر تیرا کو واپس جانا پھر باجوڑ انا کوئی منطق نہیں بنتا. ہوسکتا ہے یوسفزوں کیساتھ اتمان خیل کے چند ایک *خیل clan* نے جزوی ہجرت کی ہوں کیونکہ اب بھی افغانستان کے *بیس* سے زیادہ صوبوں میں اتمان خیلو کا وجود پایا جاتا ہیں.اور یوسفزوں نے ساری لڑایاں اتمان خیلوں کی بدولت جیتی تھی.
مشھور مورخ بھادر شاہ ظفر کاکا خیل اتمان خیل کو ہیروڈٹس دور کے اساکینی Assakenoi مانتے ہیں اسی طرح مسٹر *بیلو Mr bellow* ایتنوگرافی آف افغانستان میں لکھتے کہ موجودہ اتمان خیل هیروڈٹس دور کــے *تمانین* *Thmaneans* یا *اتایی ار اتی اینز Utoi or Utains* یا *تیمانی Tymani* کی نمائندگی کرتی ہیں اسی طرح علامہ عبدالحئ حبیبی زروسٹر "زرتشتـــ" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انکی کنبہ کا نام *سفید تمان* تھا اور وہ بلخ ســے تھے"
درحقیت پشتون اپنے قبائلی نام جس طرح سے پکارتے ہیں وہی اصل نام ہوتے ہیں لیکن غلجی سے خیلجی ، ترکانی سے ترکلانی، اور تمان سے اتمان " تبدیل کرنا خالص عرب تسلط کے زیر اثر آیا ہیں.
کیونکہ اتمان خیل قبیلے کی ذیلی شاخیں اسلامی ناموں کے مطابــــــق نہیں اور انکی قدامت کی علامتیں ہیں جیســـے *مـــــــاندل، کـــــرانی، شمــــوذ، پیغــــوذ، متــک، اصــــیل، بــــٹ، گــــوری، ســـرکان، ســـرنی ، سنیـــــز ،ٹاکـــــــــــــور وغیرہ* . اسی طرح خوشحال خٹک نے دستار نامے میــــــں خٹک، اپریدی اور اتمان خیل نسلاً ایک لوگ بیان کئــــے ہیں اور روایتی شجروں میں بھی ایکــــــ باپ سے ہیں. مورخین اس پر متفق ہیں,
*کہ خٹک ہیروڈوٹس دور کے ستاگیدی، اور اپریدی اپاریتی ہیں تو ظاہر ہیں اتمان خیل بھی اس سلسلے کی ایک اکائی ہے.*
مختصر یہ کہ ہیروڈٹس اور بطلیموس نے اباسین کے اطراف میں اباد اقوام کی جو جسمانی ساخت اور حلیہ بیان کیا ہے وہ کرلانیوں ســـے مطابقت رکھتے ہیں کیونکہ ان کـــــی ان سرزمینو پر قدیــــــــــم ، رسم و رواجیں ، ان کی مظبــــوط قدوقامتیں ، شکل و صورتیں، لھجــے، انکــــی آرنیتـــــ اور قدیمیتــــ کی علامتیں ہیں اور ان کــــــی اس خطــــــے میں موجودگـــــی کی دلالتــــ کرتی ہیں کیونکہ *1526 سے پہلے گندھارا میں رہنے والے واحد پشتون کرلانی تھے.* اتــــــــمان خیل بھی افسانوی کرلان سے منسوب ہے اسکا مطلب ہے کہ جدید مورخین کرلان ایک فرد کی بجائے ایک ایتنیک گروپ تصور کرتے ہیں. لیکن ہوسکتا ہیں کہ کرلانیوں کی نسلی ربط بھی ہو کیونکہ بھت سارے عوامل میں انکی باہمی اشتراک ، ان کی زبان اور لھجے ، جسمانی ساختیں، قدآورمجسمے، عادات واطوار، کلچر و روایات، ننگ و غیرت، جرات و بھادری کی صفات مشترک ہیں.
پندرہ ویں صدی سے پہلے بھی اتمان خیل خالص کرلانی لھجے بولتے تھے کیونکہ انکا جغرافیہ یا وطن تیرا یعنی خیبر سے لے کر دیر، باجوڑ، اور ملاکنڈ،مردان، اشنغر تک تھا لیکن قبائلی تصادم میں اتمان خیلو کو اپریدیوں سے شکست ہوئی تو انہیں خیبر سے پیوست علاقے چھوڑنے پڑے بعد میں مومندوں نے انکی علاقے میں دراندازی کی اور مھاجرین کی شکل میں اباد ہونے کے بعد قابض ہوئے کیونکہ تاریخی طور پر ظھیرالدین بابر کے دور میں یہ لوگ غزنی کے علاقوں میں رہتے تھے اسی طرح ملاکنڈ سے اشنغر تک کے علاقوں سے بھی اتمان خیلو کو ہاتھ دھونا پڑے اور مختلیف قبیلوں نے وہ علاقے ان سے قبضہ کئے لیکن اب اتمان خیل ان قبیلوں سے گھل مل گئے ہیں اور اچھے تعلقات رکھتے ہیں.
اتمان خیل قبیلے کی قدامت کا اندازہ خوشحال خان خٹک کے ان اشعار سے بھی لگایا جا سکتا ہیں.
*په اړهنګ بړهنګ کې هم شتۀ اتمان خیلی
د ســـــړیو پـــه جــامو جـــامو ریمــــــنې*
*یا*
خوشحال ناست په برمول دے
ارمانونه د اټــکــــــــ کـــــــــــۀ
حاصل کلام یہ کہ اتمان خیل یہاں کے اصل باشندے ہیں لیکن قبائلی جھگڑوں، اندرونی چپقلشو، اور مغلی جنگوں میں کمزور ہوگئے خاص کر اکبری دور میں اتمان خیلو کا وسیع پیمانے پر قتل عام ہوا تھا آور *ماندل Mandal* جو کہ *اتمان Utman* کہ بڑے بیٹے مانے جاتے ہیں ان کو زندہ جلادیئے تھے *خوشحال خان ان جنگوں کے بارے میں کہتے ہـــــــے*
تر کــړپه تر باجوړه سمې غرونه
په لرزه په زلزله شول په بار بار*
ان وجوھات کی وجہ سے اتمان خیل کے زیادہ تر افراد دوسرے قبیلوں میں ضم ہوگئے اور ضلع لورلائی بلوچستان، ضلع اورکزئ، ٹانک، گومل، شمالی وزیرستان، ایران، افغانستان، ہندوستان تک پھیل گئے وقت کیساتھ ساتھ زیادہ تر اپنی شناخت بھول گئے اور کچھ تو مورخینوں نے دوسرے قبیلوں یعنی کاکڑ، اورکزئ، یوسفزئ، کے فرضی شجروں میں شمار کئے اور اسی طرح ان عوامل کی وجہ سے اتمان خیل اپنے دوسرے کرلانی قبیلو سے دور ہوگئے اور اپنا خالص کرلانی لھجے بھی زیادہ تر بھول گئے اور پشاوری لھجے بھولنے لگے سکھوں اور انگریزوں کی پختون سرزمین کے دراندازی میں بھی اتمان خیلو نے کلیدی کردار ادا اور بھادری سے اپنے وطن، مٹی کی حفاظت کی اور اپنے عادات سے مجبور غلامی کی بجائے جنگ پر ترجیح دی جسکی نتائج اتمان خیلو کو بھگتنا پڑے اور ایک بار پھر بڑے پیمانے میں اپنے قبیلے کے افراد کھودئے *سید احمد شھید بریلوی نے تو سکھوں کے خلاف تحریک میں اتمان خیلو کی سرزمین پر ملک لعل محمد پڑانگ غاری کے ہاں ایک ماہ سے زیادہ قیام کیا*. انگریزوں نے بھی سب سے پہلے اتمان کے خلوف محاذ کھول دئیے تھے اور سب سے پہلے پڑانگ غر کے اتمان خیلوں پر چھڑائی کی تھی کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف کچھ پختون اپنے ایمان کا سودا کر رہے تھے اور انگریز اُن کو اقتدار سونپ رہے تھے تو دوسری جانب اپنے ایمان کا سودا نہ کرنے والے اتمان خیل ان کے خلاف برپیکار تھے. *انگریزوں نے انکی اس ردعمل میں اتمان خیلو کے بڑے بڑے گاوں ورتیر، ګمبتۍ، میاخان، سنگاو، پیپل، کوہی برمول جلادیے اور ہاتھیوں سے مسمار کئے تھے.*
ہندوستان کی تقسیم کے بعد اتمان خیلوں نے کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن استعماری قوتوں نے ان کی بڑی ابادی ایک مخصوص پلان کے تحت تین ایجنسیوں ملاکنڈ، مومند، اور باجوڑ میں تقسیم کیی جسکی وجہ سے ان کی ترقی کے راستے بند ہوگئے اور سماجی، سیاسی، اقتصادی لحاظ سے پسماندہ رکھے گئے اور حکومت پاکستان نے انکے ساتھ شناختی کارڈ کی نیکی کی اتمان خیلو کے علاقوں پر فوجی اپریشن اور طالبانایزش کا عذاب بھی ایا لیکن ان کی امن پسندی، قبیلوی اشتراک ، باہمی ربط اور اتفاد اتحاد، سے ان عناصر کو اپنے علاقوں سے دور رکھ کر مہذب شہری ہونے کا ثبوت پیش کیا اور امن ک ساتھ دیا.
اتمان خیل قبیلے کے لوگ سادہ دل، مہمان نواز، مخلص، وفادار، محنتی، جرات مند، غیرت مند، فرض شناس، روشن خیال اور دل کے سچے ہوتے ہیں اسلئے تو **مشھور فلسفی شاعر غنی خان نے اپنی نظم "اووه ګلونه سات پھول"* میں اتمان خیلوں کی تعریف کچھ اس طرح کی ہـــــے.
یـــــــــم پیدا د اشنغره
خــو په فکر اتمان خـیل
یوه کږه ورانه ویــجاړه
غوندی زاڼه د دے سیـل
اتمان خیل قبیلے میں بڑے بڑے نامور، سالار، صوفی، شعرا، ادیب، بہادر، قام پرست، گزرے ہیں جن میں *طرم خان "طرہ باز خان" اُتمان شمریز، شیخ عطااللہ رع، ملک لعل محمد، مولانا عبدالمجید افغانی، ملک میرباز، عبدالطیف آفندی، بخت پور، کیمور اتمان خیل،جنرل قاضی رحمت اللہ خان، ملک مومن خان، علول شاہ، ارسلاخان، شیخ عبدالرحیم، شیخ انوربیګــ،شیهشن بابا استاندار، ملک شاجھان شہید، تحتــ مرزا، عمردین عمر، وغیره شامل ہیں.*
موجودہ اتمان خــیل قبیلہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ملکی اور غیر ملکی سطح پر اعلی تعلیم یافتہ، پیشہ ور، سیاسی، سماجی، کاروباری، مذھبی، لکھاری، افراد پیدا کئے ہے جو لوگوں کی خدمتــ میں سب سے اگے ہیں.