حاجی کریم داد خان بامی زئ احمد شاہ درانی مرحوم کی طرف سے صوبیدار کشمیر تھا پھر اس کے مرنے کے بعد آزاد خان اس کا چھوٹا لڑکا اپنی جرات اور دلیری سے کشمیر کا سوبیدار ہو گیا اس نے اپنے بھائیوں کو وہاں سے نکالا اور انتظام مالی اور ملکی وہاں کا اپنے طور پر کیا اور تمام سپاہیوں کو زر نقد اور پٹکے نفیس شال کشمیری کے دے کے سب کو راضی اور خوشنود کیا اور قریب تین ہزار آدمی سکھ اور ہر نواح کے نوجوان خوب دلاور رکھے۔ اور تیمور شاہ کو خراج کا دینا موقوف کرکے باغی ہوگیا تیمورشاہ اس کی حرکت سے منغض اور مکدر ہوئے اور اپنی دولت خواہوں کی صلاح سے مرزا محمد علی مخاطب بکفایت خان موسوی کو اس کے پاس بھیجا کی اسکو نصیحت اور فہمایش کر کے راہ راست پر لائے چنانچہ خان مسطور کشمیر میں پہنچے مگر آزاد خان کی جراری اور سفاکی دیکھ کر چند کلمہ نصیحت آمیز اس کی مرضی کے موافق کہہ کر اور قریب دو تین لاکھ روپے کے نقد و جنس لے کر مراجعت کی۔ ھنوز خان کشمیر سے آگے آگے نہ بڑھا تھا کہ تیمور نے اس کے تمرد سے ناراض ہو کر مرتضی خان اور زمان خان کو کہ یہ دونوں بڑے بھائی آزاد خان کے تھے 30 ہزار سوار اور بہت سے سردار لے کر آزاد خان کی تنبہہ کیلئے روانہ کیے۔ جب یہ فوج کشمیر کے قریب پہنچی تو قصبہ پکہلی کے متصل کہ آزاد خان کا سسر اس میں رہتا تھا اور اس روز حسب اتفاق یہ بھی وہی تھا ٹہرے ازاد خان آمد شاہی فوج اور بھائیوں کے سن کے اس کے دیکھنے کے واسطے دریا کے کنارے پر کہ فوج شاہی اور اس میں فاصلہ تھا گیا اور کچھ سوار بھی اس کے ساتھ تھے اور فوج شاہی دریا کے اس کنارے پر تھی انہوں نے پوچھا کہ اے سواروں تم کون ہو ؟ آزاد خان نے زبان افغانی میں کہا کہ تمہارا باپ آزاد خان اور تین آوازیں بندوق کی کر کے چلا گیا دوسرے دن فوج شاہی اور آزاد خان کے درمیان لڑائی ہوئی کہتے ہے کہ پہلی بار فوج شاہی فتح یاب ہوئی اور ملا اعظم خان کے سردار اعظم ۔۔ آزاد خان کے لشکر کا تھا مارا گیا اور قریب 2000 ہزار ادمی اس کے لشکر کے دریائے مظفرآباد میں غرق ہوگئے آزاد خان کشتی پر سوار ہو کر چاہتا تھا کہ دریا سے اتر کر بھاگے اور اپنے ساتھیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔
اتنے میں پہلوان خان جو کہ ازاد خان کا چچا ذاد بھائی تھا اور بڑا بہادر اور دلیر تھا اس نے ازاد خان سے کہا کہ میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ شاہ سے بغاوت نہ کرنا اب تو کہا جائے گا؟ اور شاہ سے کیسے امان پائے گا اب تو ٹھر جا کہ شاہی فوج کو شکست دیتا ہوں.غرض یہ کہ پہلوان خان نے اپنی فوج کو جمع کیا لڑائی شروع ہوئی لیکن شاہی فوج کے امرا بھاگ اٹھے اور برھان خان پپلوزئ گرفتار ہوئے اور ازاد خان فتح یاب ہوکر کشمیر کو روانہ ہوا پھر شاھی فوج نے اپنے اپ کو سنبھال کر پکھلی پر حملہ ازاد خان نے وہاں بھی خوب مقابلہ کیا اور شاھی فوج شکست کی تاب نہ لوکر پسپا ہوئی.
اس جنگ میں ایک شخص کی کہانی بھت عجیب ھے کہ باوجود شاھی فوج کے شکست وہ ہاتھ میں تلوار ، لئے ازاد خان کے سپاھیوں سے لڑتا فھا اور تلوار مار کر اگے پیش قدمی کئے جاتا تھا. ازاد خان نے اسکی جرات اور بھادری دیکھ کر اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ اس نوجوان کو زندہ میرے پاس لے آو. ہر چند لوگوں نے اس سے کہا کہ اپ کو ہمارا سردار ازاد خان بلاتا ہے اور آپ کو امان دی ھے مگر اس نے نہ مانا اور اسی طرح اکیلے لڑتا رہا اخر کار ایک سکھ نے اکر اسکے ہاتھ پر تلوار ماری اور تلوار اسکے ہاتھ سے گر پڑا. تب اس نے بائیں ہاتھ میں تلوار لی اور لڑنے لگا لیکن ازاد خان کے آدمیوں نے اسکو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس سے کہا کہ تو نے اپنے آقا کا نمک خوب ادا کیا صد افرین . مگر اب اپ کے فوج کو شکست ہوئی ھے اور اپ تنہا رہ گئے ھے اب کیوں جان دیتا ھے آ ہم اپ کو اپنے سردار سے ملواتے ھے اور اس نے تجھ کو امان بھی دی ھے. تب اس نے کہا کہ اگر یہ بات ھے تو تم لوگ مجھ سے دور رہو میں خود اپ کے سردار کے پاس جاتا ہوں بس لڑنا موقوف کرکے تھوڑا سا پانی پیا اور گھوڑے پر سوار سردار کے سامنے گیا اور السلام علیکم کہا ازاد خان نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہوں ، کہا اور کس قوم سے اپکا تعلق ھے؟
بولا میں سپاھی ہوں اور ملک یوسفزئ قریہ
اتـــــمان خــــیل قبیلے کا سید ذادہ ہوں "" یاد رہے! یہاں سی ذادہ لکھا ہیں اتمان خیل قبیلے میں سید ــ استاندار ــ میاہ ـــ ملا خیل ـــ شیخ ـــ وغیر ٹائٹل کے لوگ بھت ہیں جو کہ نسلاً اتمان خیل "" سادات یعنی ال رسول نہیں ھے """ اور میرا نام عــــــلول شا ھے.
ازاد خـــان نے اس وقت ایک جراح کو بلا کر کہا کہ دس دن میں اگر اپ نے نوجوان کے زخم ٹیک نہ کئے تو اپ کو قتل کردونگا سو روپے خرچ کیلئے دیئے اور دو وقت کی روٹی اپنے باورچی خانہ سے مقرر کیا جب دس روز بعد غسل و صحت کرکے ازاد خان کے دربار میں حاضر ہوا تو ازاد خان نے اس سے کہا کہ اے نوجوان ہمارے لشکر میں اپ کو کوئی پہچانتا ھے یا تو کسی کو پہچانتا ھے تو اس نے کہا کہ میں سوا نجیب اللہ خان کے اور کسی کو نہیں پہچانتا
ازاد خـــــان نے نجیب اللہ کو بلا کر اسکے روبرو کھڑا کیا اور خان مذکور نے کہا کہ ہاں مـــیں اس نوجوان کو پہچانتا ہوں ـ ازاد خـــــان نے اسکو 500 روپیہ اس وقت نقد عنایت کیا اور 300 روپیا تنخواہ اسکلئے مقرر کیا اور کہاں کہ تو اپنے وطن سے اچھے اچھے دلاور جوان بلا لے میں ان کو تنخوا معقول اور عزت کیساتھ اپنا نوکر رکھونگا بعد اسکے ازاد خان فوج شاھی کے قیدیوں کو طلب کرکے کہاں کہ تم میری اطاعت کرو تقریبا 1500 ادمیوں نے اسکی اطاعت کی اور باقی کو اس نے کشتیوں میں بٹاکر دریا میں ڈبو دیا یہ تھی ایک بہادر جنگجو علول شاہ کی کہانی.
ماخــوذ !! واقــــعات درانــــی
مصـنف !! میر وارث علی سیفی